(1904-1995) غلام مرتضی سید باالمعروف جی۔ ایم سید تحریک پاکستان کے اہم رہنما اور پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی اسی تخلیق کی ریاست کے تادم مرگ قیدی بھی تھے تو پاکستان سے سندہ کی علحدگی پسند تحریک کے بانی بھی۔ جدید سندھی قومپرستی کے نظریہ دان بھی۔ انہوں نے کہا تھا:“ پانچ ہزار سالہ پرانی سندہ مں سے پاکستان ایک گزرتا ہوا جلوس ہے جبکہ سندہ ایک تاریخی فطری قدرتی وطن ہے اور قائم و دائم ہے۔”
وہ کئی کتابوں کے مصنف ( جن میں سے کچھ کتابیں زیر بندش) تھے اور شاید پاکستان میں وہ پہلے مصنف تھے جنکی مذاہب عالم پر ایک تالیف اور تصنیف شدہ کتاب “جئین ڈٹھو آہ موں” پر پابندی لگی۔ ان پر ملائوں اور پیروں و مشائخ کی طرف سے کفر کے فتوے بھی لگے۔ جی ایم سید سب سے پہلے رہنما تھے جنہوں نے مل پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کے اُبھار کی پیشنگوئی انیس سو پچاس کی دہائی میں کردی تھی۔ اور انیس سو نوے کی دہائی میں سابقہ سویت یونین ٹوٹنے کے فوری بعد اقوام متحدہ کی از سر نو تشکیل اور سرمائیدارانہ بلاک اور کمیونسٹ بلاکوں میں بٹی دنیا میں روحانی ملکوں کے بلاک قائم کرنے کی بھی بات کی تھی ان کی موت بھی طویل نظر بندی کے دوران قیدو بند کی حالت میں ہوئی۔ انکی قید و نظر بندی کے وقفہ وقفہ طویل مدتیں نیلسن مانڈیلا کی معیاد قید سے بھی زیادہ تھیں۔ یہ ”اعزاز‘‘ بھی بنظیر بھٹو کی حکومت کو جاتا ہے کہ جس نے باوجود اپیلوں کے جناح اسپتال کراچی میں بستر مرگ پر پڑے چورانوے سالہ علیل اسیر کو رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اسی طرح جی ایم سید جو آخری بار نوازشریف حکومت میں جنوری انیس سو بانوے میں نظربند کر دیئے گئے وہ اپریل1995ء تک تادم مرگ نظربند رہے۔
دوران نظربندی انہوں نے تصنیف و تحقیق کا کام جاری رکھا اور تقریباً ساٹھ کتابیں تصنیف کیں۔ انیس سو سڑسٹھ میں اپنی نظربندی کے دوران اپنے دوستوں ساتھیوں اور واقف کاروں پر اپنی تصنیف’’جنب گذرایم جن سیں‘‘ (جنکے ساتھ عمر گزاری میں نے) میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:’’ مارشل لا کا نفاذ ہوا تو پھر قید و نظربندی کا قرعہ فال میرے نام نکلا، نہ میں نے اسمگلنگ کی تھی اور نہ عہدوں کا طلبگار رہا تھا نہ پرمٹ لیکر املاک میں اضافہ کیا تھا، نہ ہی وطن سے غداری کی تھی اور نہ ہی میں پاکستان کا مخالف رہا تھا بلکہ ایک حد تک تو اس کے (پاکستان کے) قیام میں میرا خاص ہاتھ رہا تھا، سندھ اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد میں نے ہی منظور کرائی تھی، سندھ میں مسلم لیگ کی تحریک کو زور پکڑوانے میں بھی جتنا میرا بس چلتا تھا ہر کوشش کی تھی، اس کے باوجود بھی مجھے ساڑھے سات سالوں تک نظربند کردیا گیا، اس کیلئے میرا کوئی اور قصور تو نہ تھا ماسوائے اس کے کہ میں ون یونٹ کا مخالف تھا، میں سندھ کے حقوق کی حفاظت کا حامی تھا۔
اس کا غیروں کو پتہ گر نہیں بھی تھا مگر اپنوں کو تو تھا” یعنی غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی دیوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری۔”قبل تقسیم سندہ میں ایک سیاسی رہنما اور بعد میں آل انڈیا مسلم لیگ سندہ کے صدر کی حیثیت میں جی ایم سید انتہائی مقبول تھے۔ جب انہوں نے عبداللہ ہارون کے ہمراہ محمد علی جناح کا جلسہ نیپئر روڈ پر منعقد کیا تو سندہ میں لوگ مسٹر جناح کو بہت کم جانتے تھے جتنا جی ایم سید اور عبداللہ ہارون کو جانتے تھے۔ یہ بات مجھے لیاری کراچی میں بلوچ تاریخدان یوسف نسقندی نے ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان ہندوستان دو الگ ملک بننے کے پچاس برس مکل ہونے یا انکی گولڈن جوبلی کے موقع پر ایک انٹرویو کے دوران بتائی تھی۔ انہی دنوں وہ مسجد منزل گاہ سکھر میں ہندو مسلم بلوے کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ دوسرے تھے ایوب کھڑو،شاید علی محمد راشدی بھی۔ یہ تنازع سکھر کے سادھو بیلو میں ایک مندر پر شروع ہوا تھا جس میں مسلمانوں کا دعوا تھا کہ یہ مسجد ہے جبکہ ہندوئوں کا دعوا تھا یہ مندر کی جگہ تھی۔ سینکڑوں ہندو قتل ہوئے تھے اور ایوب کھوڑو سمیت کئی سینکڑوں مسلمان گرفتار ہوئے تھے۔ ایوب کھوڑو کی گرفتاری کے بعد مسجد منزل گاہ ایجیٹیشن کی سربراہی جی ایم سید نے سنبھالی تھی۔ مسجد منزل گاہ فسادات عام طور صوفی مزاج والے سندہ میں ہندو مسلم نفاق اور فرقہ واریت کی ایک طرح سنگ بنیاد تھے۔
جی۔ایم سید بہرحال ساری عمر مسجد منزل گاہ اور قیام پاکستان میں اپنے کردار پر نادم رہے اور اسے اپنا گناہ عظیم سمجھتے رہے اور بارہا اسکا کھلے عام اعتراف بھی کرتے رہے تھے۔ یہ وہی جی ایم سید تھے جو پاکستان کے بانی کے قتل کی افواہیں سن کر دھاڑیں مار کر روئے تھے۔ غلام مرتضی سید نے برصغیر مییں سب سے پہلے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کی قرارداد سندھ اسمبلی میں اکثریت سے منظور کروائی تھی۔انہوں نے اپنی سیاست کا تمام محور و قبلہ سندھ کو بنایا اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد تیئس مارچ انیس سو تہتر کو انہوں نے’’سندھو دیش‘‘ کا نعرہ لگایا۔ انہوں نے اپنے تصور سندھو دیش پہ ایک کتاب “سندھودیش چھو آئیں چھا لائی” ( سندھو دیش کیوں اور کس لیے ؟) تحریر کی جسکا انگریزی میں بھی ترجمہ “سندھو دیش: اے نیشن ان چین” کے نام سے ہوا ہے
The writer is a poet and journalist in exile.