اجمل کمال نے کہیں کہا تھا کہ پچھلے پچاس سال میں کراچی کے لکھنے والے شہر کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بارے کوئی مضمون ایسا نہیں لکھ سکے جس میں میر صاحب کا مژگاں تو کھول والا مصرعہ نقل نہ کیا گیا ہو۔ میں اجمل صاحب سے اختلاف تو کیا اتفاق کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ میر نے پاکستان کے بارے میں جو شعر کہے ہیں اس میں مژگاں والے مصرعے سے زیادہ مقبول مصرعہ وہ ہے جو انہوں نے عطار کے بجائے اس کے لونڈے سے نسخہ بندھوانے کے بعد لکھا تھا۔
یہ مصرعہ عام طور پر ہمارے سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اسی نا قابل اشاعت تعلق کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے ‘تڑک کر کے ٹٹ جانے’ کو پچھلے کچھ مہینوں سے اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ عمران خان جو اسٹبلشمنٹ کے مبینہ طور پر ‘نیوٹرل’ ہو جانے سے پہلے اس بات کے قائل بلکہ اس پر بضد تھے کہ ان کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے جب تک حکومت میں رہے سرعام فوج کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کا اعلان اور نجی محفلوں میں اپنے ناگزیر ہونے کا دعوی کرتے رہے۔
جب تحریک عدم اعتماد پیش کی جا چکی تو ناگزیر وزیراعظم نے نیوٹرل نہ ہونے کی صورت میں آرمی چیف کو تاحیات ایکسٹینشن دینے کی پیش کش بھی کی۔ معاملات بہرحال طے نہیں پا سکے اور فوج نے اس حکومت کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا جسے وہ اس سے پہلے کی کئی حکومتوں کی طرح بڑے چاو سے لائی تھی۔
عمران خان صاحب یہ جانتے تھے کہ فوج جتنی ان کے حق میں نیوٹرل تھی اب اتنی ان کے خلاف نیوٹرل ہے اس لیے انہوں نے نیوٹرل ہونے کو طعنہ بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ دوسری طرف اپوزیشن اتحاد کو بھی اندازہ تھا کہ نواز شریف کی سزا کی معطلی اور پاکستان سے چلے جانے کا موقع دینے اور عمران خان صاحب کی حکومت سے گھریلو ناچاقی کے باوجود مسلم لیگ اور اس کے لواحقین سے فوج کے تعلقات اتنے اچھے بہرحال نہیں ہوئے کہ عمران خان کی تنقید کے جواب میں وہ فوج کا دفاع کرنے لگے۔ سو ماضی کی اپوزیشن اور بعد میں حکومت بن جانے والے اتحاد نے خاموشی اختیار کیے رکھی فوج نیوٹرل ہونے کے دعوے کی وجہ سے کچھ بوک نہیں سکتی تھی اور ابن انشاء مستعار لیا جائے تو پانی پت کی چوتھی جنگ میں ایک طرف ابراہیم لودھی تھا اور دوسری طرف کوئی نہیں تھا۔
خان صاحب بمقابلہ کوئی نہیں کے اس میچ میں میڈیا کی ساری توجہ تو خان صاحب کی طرف رہی لیکن خان صاحب لانگ مارچ میں وہ رونق نہ لگا سکے جس کی توقع انہیں اور ان کے چاہنے والوں کو تھی۔ نتیجہ یہ کہ لانگ مرچ دھرنے میں نہیں بدلا۔ عمران خان صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر کے پلٹ آئے اور فوج کے عمران خان کے خلاف نیوٹرل ہو جانے کے خیال کو تقویت ملی۔
اسمبلیاں توڑنے کا عمل طول پکڑتا گیا جب تک پنجاب اسمبلی نہیں ٹوٹی عمران خان کی اتحادی جماعت کے فوج کے اعلی عہدے داروں سے پنڈی میں ملاقاتوں کی خبریں آتی رہیں۔
اب جب کہ دو صوبوں کی اسمبلیاں ٹوٹ چکی ہیں، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں واپسی کا اعلان کر چکی ہے، اسپیکر تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے استعفوں کی ایک کھیپ منظور کر چکے ہیں، الیکشن کمیشن عمران کے خلاف ریفرنس کی سماعت کر رہا ہے۔ نیوٹرل ہونے یا نہ ہونے کی وہ بے کار بحث جاری ہے جس میں شریک ہر فریق یہ کہتا ہے کہ فوج کو نیوٹرل ہونا چاہئیے اور ہر فریق یہ چاہتا ہے کہ فوج نیوٹرل نہ رہے بلکہ اس کی حمایت کرے۔ وجہ اس بحث کے بے کار ہونے کی یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں کہیں یا نہ کہیں یہ تسلیم کر چلی ہیں کہ وہ فوج کو راضی کیے بغیر حکومت میں آ نہیں سکتیں آ جائیں تو چلا نہیں سکتیں چلا لیں تو بچا نہیں سکتیں۔
قصہ مختصر یہ کہ کم سے کم مستقبل قریب میں عطار کے اس نیوٹرل لونڈے سے دوا لینے کا یہ سلسلہ اسے طرح چلتا نظر آ رہا ہے۔ یوں بھی اس بھوت کی طرح جو قبرستان میں بیٹھا اپنے بچے کو سمجھا رہا تھا کہ انسان ونسان کچھ نہیں ہوتا سب باتیں بنی ہوئی ہیں ہمیں یہ مان لینا چاہئیے کہ نیوٹرل ویوٹرل کچھ نہیں ہوتا سب باتیں ہیں جو ہوتی رہیں گی۔
The writer is a Pakistani poet and activist based in Canada.