10 اپریل 2021 کو میرے والد کو مسلح اہلکار ہماری آنکھوں کے سامنے اٹھا کر لے گئے تھے۔ اس دن سے اب تک نہ ہمارے گھر میں کسی کی سالگرہ منائی گئی اور نہ کسی کے ساتھ تحفے تحائف کا تبادلہ ہوا۔
بہت سے بچوں کو اپنے والد کے ساتھ گاڑی یا موٹر سائیکل پر بیٹھے دیکھتی ہوں تو رشک آتا ہے کہ دو سال پہلے ہماری بھی ایک زندگی تھی- ہماری زندگی کو گن پوائنٹ پر ہائی جیک کیا گیا۔ ہماری زندگی اب مسلح اہلکاروں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ ہم مسکراتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے جیسے ہم بڑے جرم کے مرتکب ہورہے ہیں اور اسکے لیے بھی خود کو سزا وار سمجھتے ہیں ۔
والدہ اکثر بیمار رہتی ہیں اور انکا زیادہ وقت بستر پر گزرتا ہے۔ بہن بھائیوں کی دیکھ بال کی زمہ داری مجھ پر ہے جو خود اپنی زمہ داری نہیں اٹھا سکتی ۔ راتوں کو دیر تک دروازے کی طرف آنکھیں کرکے بیٹھ جاتی ہوں کہ شاید اغوا کاروں کو ہم پر ترس آجائے اور میرے بابا کو چھوڑ دیں۔ میرے پاس اپنے بہن بھائیوں کو جھوٹی تسلی دینے کے لیے کچھ بھی کہنے کو نہیں ہوتا !
چھوٹی بہن مہروز جس نے اپنے والد کو دیکھا بھی نہیں ہے اپنے عمر سے بھی بڑے سوالات کرتی ہے۔ دن رات بابا کے بارے میں بات کرتی ہے۔ بڑبڑاتے ہوئے نجانے کیا کیا کہتی ہے ۔ حمل کو ان دو سالوں میں ایک بار بھی مسکراتے نہیں دیکھا۔ وہ بات بھی نہیں کرتا جیسے دیمک کسی درخت کو کھا جاتی ہے۔ حمل کا غم اسے اندر سے ہی کھائے جا رہا ہے۔ ہمارے گھر میں کوئی کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھاتا یہ سوچ کر کہ پتا نہیں ابو نے کھانا کھایا ہوگا یا نہیں۔
ہم زندہ لاش ہو کر رہ گئے ہیں۔ اگر آپ نے اپنی زندگی میں زندہ لاشوں کے بارے میں صرف سنا ہے دیکھا نہیں ہے تو آئیں ہمیں دیکھیں کہ کیسے ہم اس زندگی کا بوجھ والد کے بغیر اپنے کندھوں پر رکھ کر اٹھا رہے ہیں کھبی کھبی گھٹن ہوتی ہے آس پاس کے لوگوں کے ہجموم سے !
اور یہ سوچ کر اور زیادہ تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے ساتھ کیوں ایسا ہورہا ہے ؟
مقتدرہ حکمران جماعتوں کے سینے میں دل نہیں ہے ؟
انکے اپنے بچے نہیں ہیں ؟
انھیں ہم کیوں نظر نہیں آتے– وہ ہماری کیوں نہیں سنتے ؟
کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں ؟
کیا ہمیں ہنسی خوشی پرامن زندگی گزارنے کا حق نہیں ہے ؟
ایسے سوالات روزانہ دماغ میں ہلچل مچاتے ہیں جیسے دماغ کی شریان پھٹنے کو ہو، نیند میں بھی ڈراؤنے خواب وہاں بھی پریس کلب کے سامنے روتے ہوئے نظر آتے ہیں اپنا دکھ اپنی والدہ کا دکھ بہن بھائیوں کی اداس آنکھیں مجھ سے تو کم از کم دیکھے نہیں جاتے اور اس بات پر اور زیادہ تکلیف ہوتی ہے کہ میرے بابا کا کسی چیز سے کوئی تعلق نہیں تھا اگر وہ مجرم ہوتا تو دو سال میں اسکا جرم ثابت کرکے اسے عدالت میں پیش کیا جاتا مگر ایسا بھی نہیں ہوا ہے ابتک ، پڑھائی ہماری متاثر ہوچکی ہے ہم میں سے بہن بھائی چاہ کر بھی کوشش کے باوجود اپنا زہن پڑھائی کی طرف نہیں لے جاپارہے ہیں میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے گھر کی خوشیاں ماتم میں بدلتی دیکھیں ہیں ہمارے گھر میں جیسے روز ماتم کا منظر ہوتا ہے والدہ کے چہرے کی زردی بالوں میں سفیدی سے بھی خوف انے لگا ہے ،حمل کا مرجھایا چہرہ بھی تکلیف دیتا ہے ، مہروز کے سوالوں کے جواب سچ میں میرے پاس نہیں ہیں ، اس لیے احتجاجی مظاہرے میں شریک ہوتی ہوں تاکہ وہ جواب حکمرانوں سے مل جائیں مگر انھیں ہماری زندگی سے کوئی سروکار نہیں ۔
ہمیں تو یہ ریاست اب وہ ہوٹل لگگنے لگا ہے جہاں داخل ہوتے ہیں موٹے موٹے الفاظ میں لکھا ہوتا ہے” اپنے قیمتی اشیاء کی حفاظت خود کریں “۔
میں ایک بار پھر مقتدر قوتوں سے اس ملک کے سیاہ سفید کے مالکوں سے اپیل کرتی ہوں کہ ہمیں ہماری خوشیاں لوٹا دیں تاکہ ہم اپنی پرانی زندگی میں دوبارہ گزارسکیں ، یہ درد ناقابل برداشت ہے یہ ازیت شاہد ہم اور نہ سہہ سکیں ۔ میرے ابو کو اٹھانے والے بھی بال بچوں والے ہونگے اگر انکے بچے ایک ہفتہ اپنے والد کو نہ دیکھیں تو ان پر کیا کفیت طاری ہوسکتی ہے انسان کو انسان سے محبت کرنے کے لیے بنایا گیا ہے انسان کے ہاتھوں انسان کونگلنے کے لیے ! ہمارے گھر میں انہتائی ازیت ناک حالات ہیں جہاں گھر کا واحد کفیل گزشتہ دو سالوں سے جبری گمشدگی کا شکار ہے اسکے بچے دو سال سے پریس کلبز کے سامنے پرامن احتجاج کرکے اپنے بابا کی رہائی کی اپیل کررہے ہیں انسان اتنا سنگ دل نہیں ہوسکتا کہ اسے دوسرے انسان کی فریاد سنائی نہ دے ۔
اگر ہمارے بابا مجرم ہوتے تو شاید یہ دکھ اور تکلیف اور ازیت کم ہوتا مگر ہمیں پتا ہے اور جبری لاپتہ کرنے والوں کو بھی پتا ہے کہ عبدالحمید زہری بے گناہ ہے وہ ہمیں بہتر مستقبل دینے کے لیے جنگ زدہ علاقے سے ہمیں کراچی کی طرف لائے تھے تاکہ ہمیں بہتر زندگی اور تعلیم دے سکے مگر کراچی کی روشنیوں نے ہماری زندگی میں اندھیرا کردیا اس گھٹن زدہ ماحول میں دم گھٹتا ہے اور والد کے بغیر جو واحد گھر کا کفیل ہے زندگی کرنے کا تصویر بھی نہیں کرسکتے تھے۔
مہروز اور حمل کو انکا بابا واپس لوٹا دیں!
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ہمیں کوئٹہ دھرنے میں یقین دلایا تھا کہ میرے بابا سمیت تمام لاپتہ افراد کا مسلہ حل کیا جائے مریم نواز شریف صاحبہ جب اپوزیشن میں تھی تب بھی انہوں وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آتے ہی یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کیا جائے گا۔ سابق وزیر اعظیم عمران خان اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اور نواز شریف بھی پہلے کئی بار یہ باتیں دہرا چکے ہیں مگر یہ صرف سیاسی بیانات کی حد تک تھے ۔
میں انسانی حقوق کی تنظیموں سے تمام انسان دوستوں سے اپیل کرتی ہوں میرے بابا کو بازیاب کرایا جائے تاکہ ہم سکون سے سانس لے سکیں ااور اپنی مامول کی زندگی میں واپس لوٹ سکیں۔
میرے بابا عبدالحمید زہری کی بازیابی میں اپنا حقیقی کردار ادا کریں تاکہ ہم بھی اپنی تعلیم پر توجہ دے سکیں اور ہم سے یہ حق نہ چھینا جائے- مہروز اور حمل سے انکا بچپن خدارا نہ چھینا جائے- انھیں بھی دوسرے بچوں کی طرح اپنا بچپن جینے کی آزادی دی جائے تاکہ وہ بھی اپنا بچپن پریس کلب کے بجائے اپنے ہم عمروں کے ساتھ کھیل کود میں گزاریں
تاکہ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح نارمل زندگی گزار سکیں ، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ایک گھر میں ماتم ہو اور حکمران اپنے گھروں میں جشن کا سماں باندھیں ،لوگوں کو جبری گمشدہ کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ ریاست کا آئین اور قانون کچھ اور کہتا ہے یہ اپنا قانون آپ لوگ کہاں سے لائے ہو ؟
شہریوں کو اغوا کرکے سالوں سال انکے اہلخانہ کو ازیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور کردیا جاتا ہے ، لوگ کس قانون کے تحت اٹھائے جاتے ہیں ؟
جب تک ریاست اپنے اداروں سے یہ سولات پوچھنے کے قابل نہیں ہوتی تو اسی طرح میری چھوٹی بہن مہروز جیسے بچوں کا بچپن پریس کلب اور سڑکوں پر گزرتا رہے گا-
بجائے ہمیں ریاست سے بد زن کرنے کے ہمیں سنا جائے اور ہمارے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کوئی قانون توڑتا ہے تو انصاف اور سزا کے لیے عدالتیں پہلے سے قائم ہیں انھیں عدالت میں پیش کرکے قرار واقعی سزا دی جائے ۔
میرے والد کی جبری گمشدگی کو 26 مہینے گزر چکے ہیں ان مہینوں میں ہماری زندگی میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں ہے روز اس امید کے ساتھ گزارتے ہیں اب نہیں تو ابھی میرے والد آجائیں گے ، ان سے لپٹ کر خوب روئیں گے ا، س سے ازیت گاہ میں گزرنے والی باتیں بھی نہیں پوچھیں گے، یہ لمحات ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی سے مٹانا چاہتے ہیں تاکہ دوبارہ چاہ کر بھی ان بے بسی کے دنوں کو یاد کرکے خود کو تکلیف نہ دیں ۔
ہمیں اپنے بابا واپس چاھییں ہر حال میں چاھییں, ہمارے گھر کے وہ واحد کفیل تھے- انکے بعد ہماری زندگی خانہ بدشوں کی طرح ہوگئی ہے کھبی اس شہر تو کھبی اس شہر۔ خانہ بدوش پھر بھی موسمی تبدیلوں کی وجہ سے اپنی خواہش کے مطابق زندگی کرتے ہیں ۔ہم یہ زندگی نہیں چاہتے۔ ہمیں اپنی 10 اپریل 2021سے پہلے والی زندگی چاہے اور امید کرتی ہوں ارباب اقتدار ایک بیٹی کی فریاد ٖضرور سنیں گے۔
The writer is the daughter of a Baloch missing person, Abdul Hameed Zehri.